ابراہیم عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’رحم د ل با پ‘‘ کے آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کا نام ’’ابراہیم‘‘ قرآن پاک میں۶۹ مقامات پر آیا ہے۔ قرآن کی رو سے آپ کے باپ کا نام آزر تھا جو ایک بُت تراش تھے اور اِس پیشے سے اُس نے اپنے معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا ظہور سر زمین بابل(موجودہ عراق)کے ایک شہر میں ہوا اور بائبل میں اس کا نام ’’اور‘‘ مذکور ہے۔ یہیں وہ اپنے شباب کو جاپہنچے اور یہیں ان کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو کہ شرک ، بُت پرستی اور کو اکب پرستی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن بچپن ہی سے آپ نے شرک اور بُت پرستی سے بے زاری اختیار کی۔ آپ نے اپنی قوم میں نعرہ توحید کی صدا لگا کر پورے معاشرے کو چیلنج کیا۔ آپ نے پورے صبر و تحمل کے ساتھ راستے کے مصائب و پریشانیوں کو برداشت کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ نبی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے مصائب جھیلے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خُلّت کا عظیم ترین مقام عطا فرمایا اور قرآن میں مختلف جگہوں پر آپ ؑ کی تعریف کی گئی۔ نبی کریم ﷺْ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملّتِ ابراہیمی کا اتباع کرنے کی دعوت دی گئی۔ آپ ؑ کو امامِ انسانیت کے لقب سے نوازا گیا۔ آپ ؑ ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی اور حج جیسی عظیم ترین عبادت کی دعوت دی۔ آپ ؑ حضرت نوحؑ کی جماعت میں سے تھے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’اور بے شک اسی( نوحؑ ) کی جماعت میں سے ابراہیم ؑ بھی تھا۔‘‘ (الصافات:۸۳)
آپ ؑنے حضرت نوحؑ ہی کی طرح حق کے راستے میں ایمان و احسان کی قندیلیں روشن کیں اور حضرت نوح ؑ ہی کی طرح استقامت اور جانفروشی کی مثالیں چھوڑیں۔ آپ کو آگ میں ڈالا گیا ، جلا وطن کیا گیا، ایذائیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن ان سب آزمائشوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے رہے۔
قرآن پاک میں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی پر مفصّل روشنی ڈالی گئی۔ آپؐ کے انفرادی اوصاف کا تذکرہ اور نجی زندگی کو اسوئہ بنانے کی دعوت دی گئی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ میں ایک اچھا نمونہ ہے۔‘‘ (الممتحنہ:۴)
حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملے میں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی مثالی تھی۔آپؑ نے زندگی کے ہر معاملے میں شریعت سے رہنمائی لی اور غیر اللہ سے رشتہ منقطع کرکے ایک اللہ کے سامنے جبین نیاز خم کی۔ آپ ؑ اخلاقِ فاضلہ کے اعلیٰ نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی زندگی کے جزئیات کو مختلف مقامات پر بیان کیا تاکہ آپ ؑ کی پیروی کا دم بھرنے والے اور ان سے نسبت پر فخر کرنے والے آپؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر آپ کے اوصاف کو اپنی زندگی میں نا فذ کرنے کی کوشش کریں۔ آئندہ سطور میں ہم حضرت ابراہیم ؑ کے چند اوصاف کا تذکرہ کریں گے تاکہ انہیں جان کر ہمیں اتباع کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔
قلبِ سلیم
قلبِ سلیم کو دوسرے الفاظ میں پاکیزہ دل بھی کہتے ہیں۔ قلبِ سلیم کے حوالے سے یہاں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔ ایک با غبان پورے سال کو انتہائی جانفشانی سے اپنے باغ پر محنت کرتا ہے تاکہ اُس کا مال داغ دار نہ رہے۔ چونکہ اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر میرا مال داغ دار رہے تو مارکیٹ میں اس کی ریٹ بہت ہی کم ہو گی اور ہر کوئی میرے مال کو ٹھکرا دے گا، جس سے میری بے عزتی ہو گی۔ اسی طرح ہمارا دل بھی ایک باغ کی طرح ہے جتنی ہم اُس پر محنت کر یںگے اتنا ہی ہمارا دل پاکیزہ رہ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ لائق رہے گا۔ ورنہ اس کے بر خلاف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے دل کو تمام بتوں اور نا پاکیوں سے پاک و صاف رکھا تھا چونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی والے دل کے بغیر ہر کوئی دل اپنی دربار سے ٹھکرا دیتے ہیں اور صرف اور صرف قلبِ سلیم والے دل کو قبول کرتے ہیں اسی لیے آپؑ اللہ کے حضور قلبِ سلیم ہی لے کے آئے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’جب وہ(ابراہیم ؑ) اپنے رب کے حضور قلبِ سلیم لے کے آیا۔‘‘ (الصافات:۸۴)
اس آیت کے حوالے سے مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ؒ لکھتے ہیں:
’’قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جو تمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو، جو شرک و نفاق کے امراض سے بالکل محفوظ ہو، جس میں نافرمانی اور سرکشی کا کوئی جذبہ نہ پایاجا تا ہو،اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کے تعلق میں کوئی الجھائو نہ ہو، اس کی منزل بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہو اور اس کا راستہ بھی صراطِ مستقیم ہو۔ اللہ تعالیٰ سے جس کی محبت میں کوئی دوسری محبت حائل نہ ہو سکے، بڑی سے بڑی قربانی اس کے لئے اس راستے کا ایک ایسا مرحلہ ہو جس سے گزرے بغیر دل کو تسکین نہ ملتی ہو۔
مزید یہ کہ ایسا گوہرِ گراں مایہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں لے کے آیا۔ کیونکہ اسے خوب معلوم ہے کہ دل کی بیداری اور آبادی بھی اسی محبوب مطلوب سے ہے اور کسی اور کی پرچھائیں بھی اس دل میں اس محبوب کو گوارا نہیں ۔ وہ اپنے دل کو ہر طرف سے صاف اور پاکیزہ کرکے اور ہر تمنّا دل سے نکال کر اپنے رب کو دعوت دیتا ہے۔ ؎
ہر تمنّا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
حضرت ابراہیم ؑ اسی کیفیت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ مقام و مرتبہ اس عمر میں عطا فرما دیا تھا جس عمر میں جوانی دیوانگی کی منزلیں طے کرتی ہے۔‘‘ (تفسیر روح القرآن، جلد ۸، ص ۴۴۷۔۴۴۶)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر قلبِ سلیم پیدا کریں تاکہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی کے مصداق بن سکیں۔ اس چیز کی دعوت علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے اشعار میں ان الفاظ میں دی ہے ؎
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار وہ خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
شرک سے بے زاری (حنیفیت)
حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کا امتیازی اور نمایاں وصف ان کا شرک اور بُت پرستی سے براء ت و بے زاری اور اللہ حد ہ لاشرک پر ایمان ہے۔ آپ نے اُس ماحول میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف شرک اور بُت پرستی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا ،لیکن آپ نے بچپن ہی سے شرک اور بُت پرستی سے اعلانِ براء ت کیا اور توحید کا مثالی داعی خود بھی بنے اور اسی چیز کی طرف قوم کو بھی مختلف انداز میں دعوت دی۔ آپ نے بچپن ہی سے فطرت کی راہ لی اور غور و فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا۔ مختلف مواقع پر قوم کو اس چیز کی طرف دعوت دی تاکہ وہ فطرت کی آواز سے ہم آہنگ ہو جائیں ۔ ایک موقع پر ستارے، چاند اور آفتاب کو نشانہ بنا کر قوم کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ یہ لوگ اپنے مشن پر استقامت دکھا رہے ہیں تو آپ ؑ نے ببانگ دہل اعلان کیا:
’’اے برادران قوم: میں ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کر لیا، جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (انعام:۷۸۔۷۹)
حضرت ابراہیم ؑ کی حق پرستی اور شرک سے بے زاری کو نمایاں کرنے کے لیے قرآن پاک نے لفظ ’’حنیف‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ یہود و نصاریٰ اپنی صریح گمراہی اور شرک کے باوجود دعویٰ کرتے تھے کہ وہی حضرت ابراہیم ؑ کے طریقے پر ہیں۔ ان کو جواب میں کہا گیا:
’’ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘ (اٰلِ عمران:۶۷)
قرآن کی اصطلاح میں حنیف سے مراد وہ شخص ہے جو شرک سے بالقصد اعراض کرکے اور اسے علیٰ وجہ البصیرۃ ترک کرکے حق کی طرف رجوع ہو، اس طور پر کر اسے کوئی چیز حق قبول کرنے سے باز نہ رکھ سکے۔ (تفسیر کبیر۱/۵۱۸)
حضرت ابراہیم ؑ اسی کیفیت کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ آج کے پُرفتن اور پُر آشوب دور میں ہم شرک اور بُت پرستی سے بے زاری اختیار کریں اور اسکے ساتھ ساتھ حنیفیت کا بھی مثالی پیکر بننے کی کوشش کریں۔
کامل اطاعت الٰہی
حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی کو سامنے رکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اطاعت الٰہی کا کامل نمونہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ رب کی پسند کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سخت سے سخت حالات کا سامنا کیا۔ کبھی آگ میں اترنا پڑا تو کبھی گھر سے بے گھر ہونا پڑا اور کبھی بیوی اور بچے کو آب و گیاہ وادی میں اکیلے چھوڑنا پڑا اور کبھی اپنے مستقبل کے آرزئوں اور امیدوں کے مرکز کے گلے پر چھری چلانی پڑی۔ ان سب نا مساعد حالات کو چیلنج کرکے ابراہیم ؑ نے ہمارے لیے اطاعت الٰہی کی ایک واضح مثال چھوڑی۔ اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پاک کہتا ہے کہ:
’’اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا ’’مسلم ہوجا‘‘ تو اس نے فورًا کہا ’’میں مالک کائنات کا مسلم‘‘ ہو گیا۔‘‘ (البقرہ:۱۳۱)
حضرت ابراہیم ؑ کی اطاعت الٰہی کا نقطہ عروج ہمیں واقعہ ذبح میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ خواب میں اشارہ پاتے ہی دونوں باپ، بیٹے تیار ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ رکوع کی حالت میں رہ کر ذبح کرنے اور حضرت اساعیل ؑ سجدے کی حالت میں رہ کر ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ دونوں باپ بیٹے کی اس تصویر کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے:
’’آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم ؑنے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔‘‘ (الصافات:۱۰۵۔۱۰۳)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ آج کے ان نا مساعد حالات میں ہم اطاعت الٰہی کا خود بھی پابند بنیں اور اسکے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اسی چیز کی طرف دعوت دیں۔
استغفار و انابت
حضرت ابراہیم ؑ ایک طرف اطاعت الٰہی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے اور دوسری طرف اُن کو یہ ڈر لا حق تھی کہ کہیں مجھ سے میرا رب تو ناراض نہیں۔ یہ احساس انہیں توبہ و استغفار اور رجوع و انابت پر آمادہ کرتا تھا۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جوایک مومن ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم ؑ کا ایک یہ وصف بھی بیان کیا گیا ہے:
’’حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔‘‘ (ھود :۷۵)
حضرت ابراہیم ؑ نہ صرف اپنے لیے بلکہ والدین اور تمام ایل ایمان کے لیے مغفرت اور بخشش کی دُعا کرتے تھے:
’’پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہو گا۔ـ‘‘ (ابراہیم:۴۱)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ اس اعلیٰ ترین صفت کا پر تو ہمارے اوپر بھی پڑے اور ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جبینِ نیاز خم کریں، اسی کی طرف رجوع کریں، اس سے مدد چاہیں اور اپنے گناہوں اور لغزشوں پر اس سے مغفرت طلب کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کو ان الفاظ میں دُعا کریں:
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْ وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (الممتحنۃ:۴-۵)
’’اے ہمارے رب! تیرے اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا دے۔ اور اے ہمارے رب ! ہمارے قصوروں سے درگزر فرما۔ بے شک تو ہی زبردست و دانا ہے۔‘‘
شکر
اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعامات بندے کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ شکر بجا لا ئے اور معبودِ حقیقی ہی کی بندگی بجا لا کر اس کی حقیقی خوشنودی کا مصداق بن جائے۔ یہ وصف حضرت ابراہیم ؑ میں بدرجہ اتم موجود تھی اور آپ ؑ قلیل نعمتوں پر کثیر شکر بجا لاتے تھے اور اس کی گواہی اس کی زبان بھی دیتی تھی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔‘‘ (النحل:۱۲۱)
بڑی خوبی یہ نہیں ہے کہ انسان کو نعمتوں کی فراونی مل جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے میں سبقت کرے بلکہ بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان قلیل نعمتوں کے مل جانے پر بھی خالقِ حقیقی کا شکر بجا لائے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے مختلف مواقع پر اس چیز کی نشاندہی کرکے قوم کو خطاب کیا کہ تمام کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور وہی بندگی کے لائق ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ جیسی فرمانبردار اولاد سے نوازا تو آپ ؑ کا دل جذبہ تشکّر سے بھر گیا، جس کا اظہار ان کی زبان مبارک سے یوں ہوا:
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ جیسے بیٹے دئیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دُعا سنتا ہے۔‘‘ (ابراہیم :۳۹)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ ہم ہر لمحہ اور ہر آن ’’شکر‘‘ کا مظاہرہ کریں۔
دُعا
دُعا عبادت کا مغز ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر بہت ہی غضبناک ہوتے ہیں کہ اگر اسے نہ پکارا جائے۔ غیر اللہ سے دُعا مانگنا شرک ہے جو کہ ایک نا قابل معافی گناہ ہے۔ دُعا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت طیبہ میں یہ وصف بہت ہی نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ تو حید کی صدا بلند کرنے کے بعد اپنے باپ اور قوم نے حضرت ابراہیم ؑ کو مختلف تکالیف پہنچائیں لیکن اس کے بدلے میں آپ ؑ نے ان کے حق میں دُعائے خیر ہی کی۔ بالآخر جب انہیں ہجرت کرنی پڑی اس وقت بھی آپ ؑ نے یہی فرمایا کہ:
’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کرنا مراد نہ رہوں گا۔‘‘ (مریم :۴۸)
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم ؑ کی مختلف مواقع کی دُعائیں نقل ہوئی ہیں۔ ان سب کا یہاں لانا بہت ہی مشکل ہے لہٰذا بالاختصار یہاں ہم صرف ان کا حوالہ نقل کرتے ہیں تاکہ دیکھنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔ ملا حظہ ہو البقرہ:۲۶۰،الصافات:۱۵۰، الشعرائ:۸۳۔۸۹، البقرہ :۱۲۶، البقرہ: ۱۲۹۔۱۲۷، ابراہیم :۴۱۔۳۵۔
ان دُعاؤں کے مضامین پر غور کرنے کے بعد ایک قاری پر یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ واقعی طور پر ایک مومن کو ان ہی الفاظ کے ساتھ دُعائیں مانگنی چاہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ ہم خوشی و غمی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ ہی کو دُعا مانگیں اور اسی سے اپنی لو لگائیں۔
عبادت گزاری
حضرت ابراہیم ؑ ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی بندگی میں محوِ جستجو تھے۔ آپ نے ہمیشہ رب کی مرضی کو ترجیح دے کر دوسری مرضیوں کو قربان کیا۔ عبادت گزاری کا وصف آپ کی زندگی میں روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔ آپ کی عبادت گزاری کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح دی ہے:
’’اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔‘‘ (الانبیاء :۷۳)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کو بجا لائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دین و دُنیا کی کامیابی کی نو ید سنا دی جائے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی دعوت دی۔ نیک لوگوں کا اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا تادم سے ایں دم قائم ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ میں بھی یہ وصف بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ ؑ نے اُس ماحول میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف بُت پرستی کا بازار گرم تھا۔ آپ ؑ کا باپ بُت تراش تھے اور اُس نے اس پیشے میں مہارت حاصل کی تھی۔ لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے ’’علم یقینی‘‘ حاصل کرنے کے بعد فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قوم میں سب سے پہلے اپنے باپ ہی کو مخاطب کیا۔ آپ ؑ نے انتہائی دل سوزی، محبت اور اپنا ئیت کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کی تاکہ وہ حق کے راستے کو قبول کرے۔ قرآن پاک نے حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے باپ کو پُر خلوص دعوت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
’’ابّا جان آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ابّا جان میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتائوں گا۔ ابّا جان آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمٰن کا نا فرمان ہے۔ ابّا جان مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں ۔‘‘ (مریم:۲۶۔۲۵)
امام رازی ؒ ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس کلام کی ترتیب میں انتہائی حسن پایا جاتا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے باپ کو ان چیزوں کی طرف متوجہ کیا، جو بُت پرستی کا باطل ہونا واضح کرتی ہیں۔ اس کے بعد غور وتد بر کرنے اور اندھی تقلید سے اجتناب کرنے کے معاملے میں اپنی اتباع کی دعوت دی۔ پھر بتایا کہ شیطان کی اطاعت عقل مندوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ آخر میں ایک ایسی وعید کا تذکرہ کیا جو انسان کو نا پسند یدہ کا موں سے روک دے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے یہ باتیں لطف و محبت کے پیرائے میں اور نرم لہجے میں کہیں۔ ان کا اپنی ہر بات کے شروع میں، ’’یَا اَبَتِ‘‘ کہنا اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں اپنے باپ سے شدید محبت تھی اور وہ اسے سزائے الٰہی سے بچانے اور راہ راست کی طرف لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ آخر میں انہوں نے فرمایا اِنِّیْ اَخَافُ (مجھے ڈر ہے) اس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے مفادات کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا یہ باتیں کہنا متعدد وجوہ سے تھا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس طرح وہ اپنے باپ کے حقوق ادا کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اور دین کی طرف رہنمائی سے بڑھ کر حسن سلوک اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اگر اس کے ساتھ ادب و احترام بھی ملحوظ رکھا جائے اور بہت نرم لہجے میں یہ باتیں کہی جائیں تو یہ نور علی نور ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر۵/۵۶۲)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں۔
مہمان نوازی
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مہمانوں کی حد درجہ مہمان نوازی کرتے تھے۔ اگر مہمان نا آشنا ہو تب بھی حضرت ابراہیم ؑ ان کی عزت و احترام کرتے تھے۔ قرآن پاک نے آپ ؑ کی مہمان نوازی کو بڑے دل کش انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’اے نبی ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے یہاں آئے تو کہا: آپ کو سلام ہے اس نے کہا: آپ لوگوں کو بھی سلام ہے۔ کچھ نا آشنا سے لوگ ہیں۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لا کر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔ اس نے کہا: آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں؟ پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا۔ انہوں نے کہا: ڈرئیے نہیں اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مزدہ سنایا۔‘‘ (الذاریات:۲۸۔۲۴)
سورۃ ذاریات کے علاوہ یہ واقعہ سورۃ ھود (آیات ۷۰۔۶۹) اور سورۃ حجر (آیات ۵۳۔۵۱) میں بھی مذکور ہے۔ مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر چہ فرشتے نا آشنا تھے پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی خوب خاطر مدارا ت کی۔ ان آیات سے یہ بات بھی مترشح ہوئی کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے مہمانوں کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کی خوب ضیافت کرتے تھے۔ لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ ہم مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کریں۔
حلم و بردباری
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ ؑ حلم و بردباری کے مثالی نمونہ تھے۔ آپ ؑ نے ہر لمحہ اور ہر آن صبر سے کام لیا اور اپنے نفس پر کنٹرول کرکے اس کو اللہ تعالیٰ کا تابع کر دیا۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی ایک شہرہ آفاق تصنیف مفرادت القرآن جلد ۲، ص ۱۲۸پر حلم کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حلم سے مراد یہ ہے کہ آدمی غیظ و غضب کے موقع پر اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے اور کوئی شخص بد سلوکی کرے تو اس کے جواب میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرے۔ حضرت ابراہیم ؑ میں یہ صفت بد رجہ اتم موجود تھی ۔ قرآن کریم نے ان کی اس صفت کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:
’’ حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بر دبار آدمی تھے۔‘‘ (التوبہ:۱۱۴)
’’حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔‘‘ (ھود :۷۵)
حضرت ابراہیم ؑ کی حلم و بردباری کا نقطہ عروج اس دُعا میں دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ آپ ؑ نے اپنی ذریت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے کی تھی۔ دُعا میں یہ بھی ہے:
’’جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینًا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ (ابراہیم :۳۶)
اس آیت کے ذیل میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’یہ حضرت ابراہیم ؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسان کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں۔ رزق کے معاملے میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا: اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے (البقرہ:۱۲۶) لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا، وہاں ان کی زبان سے یہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اسے سزا دے ڈالیو۔بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ان کے معاملے میں کیا عرض کروں۔ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن۲/۴۸۹)
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوئہ بنا کر ہمیں چاہیے کہ ہم حلم و بردباری کا مثالی نمونہ بننے کی کوشش کریں۔
صداقت شعاری
اللہ تعالیٰ کے قول و فعل میں بالکل تضاد نہیں ہوتا اور یہی صفت ایک مسلمان میں بھی ہونی چاہیے۔ جس انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے وہ انسانیت کی سطح سے نیچے اتر جاتا ہے۔ نیک لوگوں نے ازل سے ہی اس چیز کی طرف دھیان دی اور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم صفت کو اپنے وجود میں لا بسایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اُن میں صداقت شعاری اور راست بازی جیسی صفات بہ در جہ اتم موجود تھیں۔ آپ ؑ کی راست بازی کی گواہی قرآن پاک نے ان الفاظ میں دی ہے:
’’اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔‘‘ (مریم:۴۱)
اس آیت کے حوالے سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ صدّیقیت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ ؑ نے بڑی بڑی آزمائشوں میں استقامت دکھا کر خُلّت کا مقام حاصل کیا۔ آپ ؑ کا تمام آزمائشوں میں پورا اُترنے کا تذکرہ قرآن اس طرح کرتا ہے:
’’یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کی حیات طیبہ کے یہ نمایاں اور امتیازی اوصاف ہیں جن کا تذکرہ ہم نے گزشتہ صفحات میں کیا۔ انہی اوصاف کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنا یا اور اُن پر انعام و اکرام کی بارش کی۔ اِ ن سب اوصاف کا ہمیں اپنی زندگی میں لانا نا گزیر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہے جسے اختیار کرکے ہی ہم اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ابراہیم ؑ جیسی زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
By Nadeem Ah Mir (original post


0 تبصرے